شفق یقین کی جب آسماں سے پھوٹے گی
تو روشنی ہی مِرے جسم و جاں سے پھوٹے گی
زمینِ دل پہ جو برسیں گے یاد کے بادل
تِرے خیال کی خوشبو یہاں سے پھوٹے گی
وہ جس نے آگ کو گلزار سے بدل ڈالا
جلا کے راکھ بنا دے گی کوہسارِ خِرِد
جنوں کی آگ محبت فشاں سے پھوٹے گی
کِھلیں گے غنچے تناسخ کے شاخِ امکاں پر
مِرے خلوص کی کونپل جہاں سے پھوٹے گی
یہ آس شاخ کبھی بھی نہ کاٹنا، اک دن
بہار بھی اِسی فصلِ خِزاں سے پھوٹے گی
کھلے گا وَرْدؔ، مِری جان! چاند دھرتی پر
کرن مہکتی ہوئی کہکشاں سے پھوٹے گی
ورد بزمی
No comments:
Post a Comment