Saturday, 30 May 2015

شفق یقین کی جب آسماں سے پھوٹے گی

شفق یقین کی جب آسماں سے پھوٹے گی
تو روشنی ہی مِرے جسم و جاں سے پھوٹے گی
زمینِ دل پہ جو برسیں گے یاد کے بادل
تِرے خیال کی خوشبو یہاں سے پھوٹے گی
وہ جس نے آگ کو گلزار سے بدل ڈالا
مِری کہانی اُسی داستاں سے پھوٹے گی
جلا کے راکھ بنا دے گی کوہسارِ خِرِد
جنوں کی آگ محبت فشاں سے پھوٹے گی
کِھلیں گے غنچے تناسخ کے شاخِ امکاں پر
مِرے خلوص کی کونپل جہاں سے پھوٹے گی
یہ آس شاخ کبھی بھی نہ کاٹنا، اک دن
بہار بھی اِسی فصلِ خِزاں سے پھوٹے گی
کھلے گا وَرْدؔ، مِری جان! چاند دھرتی پر
کرن مہکتی ہوئی کہکشاں سے پھوٹے گی

ورد بزمی

No comments:

Post a Comment