Thursday, 28 May 2015

دام خوشبو میں گرفتار صبا ہے کب سے

دامِ خوشبو میں گرفتار صبا ہے کب سے
لفظ، اظہار کی الجھن میں پڑا ہے کب سے
اے کڑی چُپ کے در و بام سجانے والے
منتظر کوئی سرِ کوہِ ندا ہے کب سے
چاند بھی میری طرح حسن شناسا نِکلا
اس کی دیوار پہ حیران کھڑا ہے کب سے
بات کرتا ہُوں تو لفظوں سے مہک آتی ہے
کوئی انفاس کے پردے میں چھپا ہے کب سے
شعبدہ بازئ آئینۂ احساس نہ پوچھ
حیرتِ چشم وہی شوخ قبا ہے کب سے
دیکھئے خُون کی برسات کہاں ہوتی ہے
شہر پر چھائی ہُوئی سُرخ گھٹا ہے کب سے
کور چشموں کے لیے آئینہ خانہ معلوم
ورنہ ہر ذرّۂ تر، عکس نما ہے کب سے
کھوج میں کِس کی پھر شہر لگا ہے امجدؔ
ڈھونڈتی کس کو سرِ دشت ہَوا ہے کب سے
امجد اسلام امجد

No comments:

Post a Comment