گھِر کے آخر آج برسی ہے گھٹا برسات کی
مے کدوں میں کب سے ہوتی تھی دعا برسات کی
موجبِ سوز و سرور و باعثِ عیش و نشاط
تازگی بخش دل و جاں ہے ہوا برسات کی
شامِ سَرما دلرُبا تھا، صبحِ گرماں خوش نما
گرمی و سردی کے مِٹ جاتے ہیں سب جس سے مرض
لال لال ایک ایسی نکلی ہے دوا برسات کی
سُرخ پوشش پر ہے زرد و سبز بُوٹوں کی بہار
کیوں نہ ہوں رنگینیاں تجھ پر فدا برسات کی
دیکھنے والے ہوئے جاتے ہیں پامالِ ہوس
دیکھ کر چھَب تِری اے رنگیں ادا برسات کی
حسرت موہانی
No comments:
Post a Comment