Thursday 28 May 2015

ہم تھے ہمارے ساتھ کوئی تیسرا نہ تھا

ہم تھے، ہمارے ساتھ کوئی تیسرا نہ تھا
ایسا حسِین دن کہیں دیکھا سنا نہ تھا
آنکھوں میں اس کی تَیر رہے تھے حیا کے رنگ
پلکیں اٹھا کے میری طرف دیکھتا نہ تھا
کچھ ایسے اس کی جِھیل سی آنکھیں تھیں ہر طرف
ہم کو سوائے ڈوبنے کے راستہ نہ تھا
ہاتھوں میں دیر تک کوئی خوشبو بسی رہی
دروازۂ چمن تھا، وہ بندِ قبا نہ تھا
اس کے تو انگ انگ میں جلنے لگے دِیے
جادو ہے میرے ہاتھ میں مجھ کو پتا نہ تھا
اس کے بدن کی لَو سے تھی کمرے میں روشنی
کھڑکی میں چاند، طاق میں کوئی دِیا نہ تھا
کل رات وہ نِگار ہوا ایسا مُلتفت
عکسوں کے درمیان، کوئی آئینہ نہ تھا
سانسوں میں تھے گلاب تو ہونٹوں پہ چاندنی
ان منظروں سے میں تو کبھی آشنا نہ تھا
رویا کچھ اس طرح مِرے شانے سے لگ کے وہ
ایسے لگا کہ جیسے کبھی بے وفا نہ تھا
ہے عشق ایک روگ، محبت عذاب ہے
اِک روز یہ خراب کریں گے، کہا نہ تھا
امجدؔ وہاں پہ حد کوئی رہتی بھی کس طرح
رکنے کو کہہ رہا تھا، مگر روکتا نہ تھا

امجد اسلام امجد

No comments:

Post a Comment