آنکھوں میں آنسوؤں کو ابھرنے نہیں دیا
مٹی میں موتیوں کو بکھرنے نہیں دیا
جس راہ پر پڑے تھے تِرے پاؤں کے نشاں
اس راہ سے کسی کو گزرنے نہیں دیا
چاہا تو چاہتوں کی حدوں سے گزر گئے
نشہ محبتوں کا اترنے نہیں دیا
ہر بار ہے نیا ترے ملنے کا ذائقہ
ایسا ثمر کسی بھی شجر نے نہیں دیا
اتنے بڑے جہان میں جائے گا تو کہاں
اس اک خیال نے مجھے مرنے نہیں دیا
ساحل دکھائی دے تو رہا تھا بہت قریب
کشتی کو راستہ ہی بھنور نے نہیں دیا
جتنا سکوں مِلا ہے تِرے ساتھ راہ میں
اتنا سکون تو مجھے گھر نے نہیں دیا
اس نے ہنسی ہنسی میں محبت کی بات کی
میں نے عدیمؔ اس کو مُکرنے نہیں دیا
عدیم ہاشمی
مٹی میں موتیوں کو بکھرنے نہیں دیا
جس راہ پر پڑے تھے تِرے پاؤں کے نشاں
اس راہ سے کسی کو گزرنے نہیں دیا
چاہا تو چاہتوں کی حدوں سے گزر گئے
نشہ محبتوں کا اترنے نہیں دیا
ہر بار ہے نیا ترے ملنے کا ذائقہ
ایسا ثمر کسی بھی شجر نے نہیں دیا
اتنے بڑے جہان میں جائے گا تو کہاں
اس اک خیال نے مجھے مرنے نہیں دیا
ساحل دکھائی دے تو رہا تھا بہت قریب
کشتی کو راستہ ہی بھنور نے نہیں دیا
جتنا سکوں مِلا ہے تِرے ساتھ راہ میں
اتنا سکون تو مجھے گھر نے نہیں دیا
اس نے ہنسی ہنسی میں محبت کی بات کی
میں نے عدیمؔ اس کو مُکرنے نہیں دیا
عدیم ہاشمی
No comments:
Post a Comment