Thursday 28 May 2015

میں ‌تیرے سنگ کیسے چلوں سجنا

میں ‌تیرے سنگ کیسے چلوں سجنا
تُو سمندر ہے میں ساحلوں کی ہوا
تُو میرا ہاتھ ہاتھوں میں لے کے چلے، مہربانی تیری
تیری آہٹ سے دل کا درِیچہ کھلے، میں دیوانی تیری
تُوغبارِ سفر، میں خِزاں کی صدا
تُو سمندر ہے میں ساحلوں کی ہوا

تُو بہاروں کی خوشبو بھری شام ہے، میں سِتارہ تیرا
زندگی کی ضمانت تیرا نام ہے، تُو سہارہ میرا
میں نے ساری خدائی میں تجھ کو چُنا
تُو سمندر ہے میں ساحلوں کی ہوا

تم چلو تو ستارے بھی چلنے لگیں، آنسوؤں کی طرح
خواب پہ خواب آنکھوں میں جلنے لگیں، آرزو کی طرح
تیری منزل بنے میرا ہر راستہ
تُو سمندر ہے میں ساحلوں کی ہوا
میں تیرے سنگ کیسے چلوں سجنا
تُو سمندر ہے میں ساحلوں کی ہوا

امجد اسلام امجد

No comments:

Post a Comment