Friday, 22 May 2015

وہ ضبط جو اس درد کے مارے میں نہیں تھا

وہ ضبط جو اس درد کے مارے میں نہیں تھا
وہ آپ کے ابرو کے اشارے میں نہیں تھا
ہر لفظ میں اس کے، مِری باتوں کی جھلک تھی
اِک لفظ بھی اس کا مِرے بارے میں نہیں تھا
میں نے تِری دنیا کی ہرایک چیز خریدی
پر پیار کا سودا مِرے وارے میں نہیں تھا
وہ لُوٹ کے سب لے گیا اموالِ محبت
حیرت ہے کہ میں پھر بھی خسارے میں نہیں تھا
میں نے اسے چاہا تھا چکوری کی طرح سے
وہ چاند مگر میرے ستارے میں نہیں تھا
میں شورشِ طوفان سے قصداً نہیں لوٹا
جو لطف تھا دریا میں، کنارے میں نہیں تھا

ادریس آزاد

No comments:

Post a Comment