کچھ لوگ جو جاتے ہیں پلٹتے ہی نہیں ہیں
اور ان کے بِنا دن ہیں کہ کٹتے ہی نہیں ہیں
بِکھرے ہی کچھ ایسے ہیں کہ کیا شعر کہوں میں
گیسُو تِرے لفظوں میں سِمٹتے ہی نہیں ہیں
ماتھے پہ جو آئے ہیں یہ ہاتھوں سے ہٹا لوں
پر، بال جو شیشے میں ہیں ہٹتے ہی نہیں ہیں
میں راستہ بھٹکوں تو چلے آتے ہیں جگنو
شاہیں تِرے صحرا کے جھپٹتے ہی نہیں ہیں
چلتے ہیں تِرے نقشِ قدم پر بھی بصد شوق
ہم صرف تِری رہ سے لِپٹتے ہی نہیں ہیں
میں ہوں کہ نِدامت سے مرا جاتا ہوں دل میں
چُپ سادھ کے بیٹھے ہیں وہ پھٹتے ہی نہیں ہیں
دروازے کھُلے ہیں جو وہ بجتے بھی بہت ہیں
وہ صرف مِرے دل میں کھٹکتے ہی نہیں ہے
اور ان کے بِنا دن ہیں کہ کٹتے ہی نہیں ہیں
بِکھرے ہی کچھ ایسے ہیں کہ کیا شعر کہوں میں
گیسُو تِرے لفظوں میں سِمٹتے ہی نہیں ہیں
ماتھے پہ جو آئے ہیں یہ ہاتھوں سے ہٹا لوں
پر، بال جو شیشے میں ہیں ہٹتے ہی نہیں ہیں
میں راستہ بھٹکوں تو چلے آتے ہیں جگنو
شاہیں تِرے صحرا کے جھپٹتے ہی نہیں ہیں
چلتے ہیں تِرے نقشِ قدم پر بھی بصد شوق
ہم صرف تِری رہ سے لِپٹتے ہی نہیں ہیں
میں ہوں کہ نِدامت سے مرا جاتا ہوں دل میں
چُپ سادھ کے بیٹھے ہیں وہ پھٹتے ہی نہیں ہیں
دروازے کھُلے ہیں جو وہ بجتے بھی بہت ہیں
وہ صرف مِرے دل میں کھٹکتے ہی نہیں ہے
ادریس آزاد
No comments:
Post a Comment