Thursday, 28 May 2015

فلک سے خاک پر لایا گیا ہوں

فلک سے خاک پر لایا گیا ہوں
کہاں کھویا، کہاں پایا گیا ہوں
میں زیور ہوں عروسِ زِندگی کا
بڑے تیور سے پہنایا گیا ہوں
نہیں عرض و گزارش میرا شیوہ
صدائے کُن میں فرمایا گیا ہوں
بتا اے انتہائے حسنِ دنیا
میں بہکا ہوں کہ بہکایا گیا ہوں
مجھے یہ تو بتا اے شدتِ وصل
میں لِپٹا ہوں کہ لِپٹایا گیا ہوں
بدن بھِیگا ہوا ہے موتیوں سے
یہ کِس پانی سے نہلایا گیا ہوں
اگر جانا ہی ٹھہرا ہے جہاں سے
تو میں دنیا میں کیوں لایا گیا ہوں
یہ میرا دل ہے یا تیری نظر ہے
میں تڑپا ہوں کہ تڑپایا گیا ہوں
مجھے اے مہرباں! یہ تو بتا دے
میں ٹھہرا ہوں، کہ ٹھہرایا گیا ہوں
تِری گلیوں سے بچ کر چل رہا تھا
تِری گلیوں میں ہی پایا گیا ہوں
جہاں روکی گئی ہیں میری کِرنیں
وہاں میں صورتِ سایہ گیا ہوں
عدیمؔ اِک آرزو تھی زندگی میں
اسی کے ساتھ دفنایا گیا ہوں

عدیم ہاشمی

No comments:

Post a Comment