آنکھوں کو اِنتظار سے گروِیدہ کر چلے
تم یہ تو خوب کارِ پسندِیدہ کر چلے
مایوس دل کو پھِر سے وہ شورِیدہ کر چلے
بیدار سارے فتنہ و خوابِیدہ کر چلے
اظہارِ التفات کے پردے میں اور بھی
ہم بے خودوں سے چھُپ نہ سکا رازِ آرزُو
سب اُن سے عرضِ حال دل و دِیدہ کر چلے
تسکینِ اِضطراب کو آئے تھے وہ مگر
بے تابیوں کی رُوح کو بالِیدہ کر چلے
یہ طُرفہ ماجرا ہے کہ حسرتؔ سے مِل کے وہ
کچھ جان و دل کو اور بھی شورِیدہ کر چلے
حسرت موہانی
No comments:
Post a Comment