Monday 18 May 2015

کیا تھا ترک محبت کا تجربہ میں نے

کِیا تھا ترکِ محبت کا تجربہ میں نے
اور اب یہ سوچ رہا ہوں یہ کیا کِیا میں نے
اب اپنے آپ کو آواز دیتا پھِرتا ہوں
کہ جیسے تجھ کو نہیں خود کو کھو دیا میں نے
یہ دُکھ بھی کم تو نہیں ہے کہ نِیم سوز چراغ
جلا نہیں تھا کہ اس کو بُجھا دیا میں نے
یہ زہر خون کے ہمراہ رقص کرتا ہے
بہت چَکھا ہے محبت کا ذائقہ میں نے
بدل رہے تھے بہت اس میں خال و خد میرے
سو خود ہی توڑ دیا، اپنا آئینہ میں نے

سعود عثمانی

No comments:

Post a Comment