Friday 29 May 2015

بدل سکا نہ جدائی کے غم اٹھا کر بھی ​

بدل سکا نہ جدائی کے غم اٹھا کر بھی ​
کہ میں تو میں ہی رہا تجھ سے دور جا کر بھی​
میں سخت جان تھا اس کرب سے بھی بچ نکلا​
میں جی رہا ہوں تجھے ہاتھ سے گنوا کر بھی​
خدا کرے، تجھے دوری ہی راس آ جائے​
تُو کیا کرے گا بھلا اب یہاں پہ آ کر بھی​
ابھی تو میرے بِکھرنے کا کھیل باقی ہے​
میں خوش نہیں ہوں ابھی اپنا گھر لٹا کر بھی​
ابھی تک اس نے کوئی بھی تو فیصلہ نہ کِیا​
وہ چپ ہے مجھ کو ہر اِک طرح آزما کر بھی​
اسی ہجوم میں لڑ بھِڑ کے زندگی کر لو​
رہا نہ جائے گا دنیا سے دور جا کر بھی​
کھلا یہ بھید، کہ تنہائیاں ہی قسمت ہیں​
اِک عمر دیکھ لیا محفلیں سجا کر بھی​
رکا نہ ظلم مِرے راکھ بننے پر بھی ریاضؔ​
ہوا کی خُو تو وہی ہے مجھے جلا کر بھی​
ریاض مجید​

No comments:

Post a Comment