Saturday 30 May 2015

آیت جاں سے در دل کو اجالے رکھوں

آیتِ جاں سے درِ دل کو اجالے رکھوں
مثلِ تعویذ گلے میں اسے ڈالے رکھوں
اس کے آنچل کی مہک چھونے لگی میرا بدن
اپنی بانہوں میں ہواؤں کو سنبھالے رکھوں
آ! مرے چاند نہ لگ جائے ستاروں کی نظر
میں ترے گِرد مناجات کے ہالے رکھوں
گو، میں خود زخم سراپا ہوں، جو تُو آئے تو
تیرے زخموں پہ لبِ وصل کے گالے رکھوں
جب تلک سانس قلم لیتا رہے، لکھتا رہوں
یونہی غزلوں میں تِرے حسن کو ڈھالے رکھوں
پہلے دن تُو نے جب اقرار کیا تھا مجھ سے
اپنی راتوں میں اسی دن کے حوالے رکھوں
رنگ و خوشبو سے سجانا ہے ہر اِک رَستے کو
وَرْدؔ! رکھوں تیری راہوں میں، کہ لالے رکھوں

ورد بزمی

No comments:

Post a Comment