Monday 18 May 2015

ہر شخص وہاں بکنے کو تیار لگے تھا

ہر شخص وہاں بِکنے کو تیار لگے تھا
وہ شہر سے بڑھ کر کوئی بازار لگے تھا 
ہر شام دَبے پاؤں نِکلتا تھا کہیں سے
وہ رنج کوئی سایۂ دیوار لگے تھا
کیا طُرفہ طلسمات تھا آئینۂ دل بھی
اِس پار لگا تھا، مگر اُس پار لگے تھا
ویرانی کا مَسکن ہے بلا شرکتِ غیرے
وہ قصر، جہاں شاہ کا دربار لگے تھا
اُس پیش میاں پیش نہ چلتی تھی کسو کی
انکار کروں تھا، تو وہ اقرار لگے تھا
وہ عشق تھا آوازۂ کُہسار کی صورت
اک بار لگا دو، تو کئی بار لگے تھا

سعود عثمانی

No comments:

Post a Comment