Saturday 23 May 2015

امید سے کم چشم خریدار میں آئے

اُمید سے کم چشمِ خریدار میں آئے
ہم لوگ ذرا دیر سے بازار میں آئے
سچ خود سے بھی یہ لوگ نہیں بولنے والے
اے اہلِ جنوں! تم یہاں بے کار میں آئے
یہ آگ ہوس کی ہے جھُلس دے گی اسے بھی
سُورج سے کہو، سایۂ دیوار میں آئے
بڑھتی ہی چلی جاتی ہے تنہائی ہماری
کیا سوچ کے ہم وادئ انکار میں آئے

شہریار خان

No comments:

Post a Comment