Tuesday 12 May 2015

یہ آرزو ہے کہ جب بھی گلے لگاؤں اسے

یہ آرزُو ہے کہ جب بھی گلے لگاؤں اُسے
حصارِ زِیست سے باہر نکال لاؤں اسے
وہ جل رہا تھا کڑی دُھوپ کی تمازت میں
مِلا جو اب تو اوڑھا دوں گا اپنی چھاؤں اسے
یہ عشق بھی ہے عجب امتحانِ عہدِ وفا
وہ آزمائے مجھے اور میں آزماؤں اسے
وہ شہر شہر چراغاں سہی مگر اِک دن
ہوائیں یاد دلائیں گی اپنا گاؤں اسے
وہ اپنے خواب میں شاید مُجھی کو دیکھتا ہو
میں تشنہ لب سہی سوتے میں کیا جگاؤں اسے

حمایت علی شاعر

No comments:

Post a Comment