ان کہی
تجھ کو معلوم نہیں، تجھ کو بھلا کیا معلوم
تیرے چہرے کے وہ سادہ سے اچُھوتے سے نقُوش
کیا تخیّل کو مِرے رنگ عطا کرتے ہیں
تیری زُلفیں، تِری آنکھیں، تِرے عارض، تِرے ہونٹ
کیسی انجانی سی معصُوم خطا کرتے ہیں
تیرے قامت کا لچکتا ہُوا مغرُور تناؤ
جیسے پھُولوں سے لدی شاخ ہَوا میں لہرائے
وہ چھَلکتے ہوئے ساغر سی جوانی، وہ بدن
جیسے شُعلہ سا نِگاہوں میں لپک کر رہ جائے
خلوتِ بزم ہو، یا جَلوتِ تنہائی ہو
تیرا پیکر مِری نظروں میں اُبھر آتا ہے
کوئی ساعت ہو، کوئی فکر ہو، کوئی ماحول
مجھ کو ہر سمت تِرا حُسن نظر آتا ہے
چلتے چلتے جو قدم آپ ٹِھٹھک جاتے ہیں
سوچتا ہوں کہ، کہیں تُو نے پُکارا تو نہیں
گُم سی ہو جاتی ہیں نظریں، تو خیال آتا ہے
اِس میں پِنہاں تِری آنکھوں کا اِشارہ تو نہیں
دُھوپ میں سایہ بھی ہوتا ہے گُریزاں جس دَم
تیری زُلفیں مِرے شانوں پہ بکھر جاتی ہیں
تھک کے سر جب کسی پتّھر پہ ٹِکا دیتا ہوں
تیری بانہیں مِری گردن میں اُتر آتی ہیں
آنکھ لگتی ہے تو دِل کو یہ گُماں ہوتا ہے
سرِ بالِیں کوئی بیٹھا ہے بڑے پیار کے ساتھ
میرے بکھرے ہوئے، اُلجھے ہوئے بالوں میں کوئی
اُنگلیاں پھیرتا جاتا ہے بڑے پیار کے ساتھ
جانے کیوں تجھ سے دلِ زار کو اِتنی ہے لگن
کیسی کیسی نہ تمنّاؤں کی تمہید ہے تُو
دن میں تُو اِک شبِ مہتاب ہے میری خاطر
سرد راتوں میں، مِرے واسطے خُورشید ہے تُو
اپنی دیوانگئ شوق پہ ہنستا بھی ہوں میں
اور پھر اپنے خیالات میں کھو جاتا ہوں
تجھ کو اپنانے کی ہمّت ہے، نہ کھو دینے کا ظرف
کبھی ہنستے، کبھی روتے ہوئے سو جاتا ہوں
کِس کو معلوم، مِرے خوابوں کی تعبیر ہے کیا
کون جانے کہ مِرے غم کی حقیقت کیا ہے
میں سمجھ بھی لوں اگر، اِس کو محبت کا جنُوں
تجھ کو اِس عشقِ جنُوں خیز سے، نِسبت کیا ہے
تجھ کو معلوم نہیں، تجھ کو نہ ہو گا معلوم
تیرے چہرے کے، یہ سادہ سے اچُھوتے سے نقوش
کیا تخیّل کو مِرے رنگ عطا کرتے ہیں
تیری زُلفیں، تِری آنکھیں تِرے عارض، تِرے ہونٹ
کیسی انجانی سی معصُوم خطا کرتے ہیں
حمایت علی شاعر
تجھ کو معلوم نہیں، تجھ کو بھلا کیا معلوم
تیرے چہرے کے وہ سادہ سے اچُھوتے سے نقُوش
کیا تخیّل کو مِرے رنگ عطا کرتے ہیں
تیری زُلفیں، تِری آنکھیں، تِرے عارض، تِرے ہونٹ
کیسی انجانی سی معصُوم خطا کرتے ہیں
تیرے قامت کا لچکتا ہُوا مغرُور تناؤ
جیسے پھُولوں سے لدی شاخ ہَوا میں لہرائے
وہ چھَلکتے ہوئے ساغر سی جوانی، وہ بدن
جیسے شُعلہ سا نِگاہوں میں لپک کر رہ جائے
خلوتِ بزم ہو، یا جَلوتِ تنہائی ہو
تیرا پیکر مِری نظروں میں اُبھر آتا ہے
کوئی ساعت ہو، کوئی فکر ہو، کوئی ماحول
مجھ کو ہر سمت تِرا حُسن نظر آتا ہے
چلتے چلتے جو قدم آپ ٹِھٹھک جاتے ہیں
سوچتا ہوں کہ، کہیں تُو نے پُکارا تو نہیں
گُم سی ہو جاتی ہیں نظریں، تو خیال آتا ہے
اِس میں پِنہاں تِری آنکھوں کا اِشارہ تو نہیں
دُھوپ میں سایہ بھی ہوتا ہے گُریزاں جس دَم
تیری زُلفیں مِرے شانوں پہ بکھر جاتی ہیں
تھک کے سر جب کسی پتّھر پہ ٹِکا دیتا ہوں
تیری بانہیں مِری گردن میں اُتر آتی ہیں
آنکھ لگتی ہے تو دِل کو یہ گُماں ہوتا ہے
سرِ بالِیں کوئی بیٹھا ہے بڑے پیار کے ساتھ
میرے بکھرے ہوئے، اُلجھے ہوئے بالوں میں کوئی
اُنگلیاں پھیرتا جاتا ہے بڑے پیار کے ساتھ
جانے کیوں تجھ سے دلِ زار کو اِتنی ہے لگن
کیسی کیسی نہ تمنّاؤں کی تمہید ہے تُو
دن میں تُو اِک شبِ مہتاب ہے میری خاطر
سرد راتوں میں، مِرے واسطے خُورشید ہے تُو
اپنی دیوانگئ شوق پہ ہنستا بھی ہوں میں
اور پھر اپنے خیالات میں کھو جاتا ہوں
تجھ کو اپنانے کی ہمّت ہے، نہ کھو دینے کا ظرف
کبھی ہنستے، کبھی روتے ہوئے سو جاتا ہوں
کِس کو معلوم، مِرے خوابوں کی تعبیر ہے کیا
کون جانے کہ مِرے غم کی حقیقت کیا ہے
میں سمجھ بھی لوں اگر، اِس کو محبت کا جنُوں
تجھ کو اِس عشقِ جنُوں خیز سے، نِسبت کیا ہے
تجھ کو معلوم نہیں، تجھ کو نہ ہو گا معلوم
تیرے چہرے کے، یہ سادہ سے اچُھوتے سے نقوش
کیا تخیّل کو مِرے رنگ عطا کرتے ہیں
تیری زُلفیں، تِری آنکھیں تِرے عارض، تِرے ہونٹ
کیسی انجانی سی معصُوم خطا کرتے ہیں
حمایت علی شاعر
No comments:
Post a Comment