Monday, 11 May 2015

اٹھا لیتا ہے اپنی ایڑیاں جب ساتھ چلتا ہے

اٹھا لیتا ہے اپنی ایڑیاں جب ساتھ چلتا ہے
وہ بونا کس قدر میرے قد و قامت سے جلتا ہے
کبھی اپنے وسائل سے نہ بڑھ کر خواہشیں پالوں
وہ پودا ٹوٹ جاتا ہے جو لا محدود پھلتا ہے
مسافت میں نہیں حاجت اسے چھتنار پیڑوں کی
بیاباں کی دہکتی گود میں جو شخص پلتا ہے
میں اپنے بچپنے میں چھُو نہ پایا جن کھلونوں کو
انہی کے واسطے اب میرا بیٹا مچلتا ہے
مِری مجبوریاں دیکھو اسے بھی معتبر سمجھوں
جو ہر تقریر میں اپنا لب و لہجہ بدلتا ہے
بدن کے ساتھ میری رُوح بھی سِپرا کتھک ناچے
غزل سانچے میں جب کوئی نیا مضمون ڈھلتا ہے

تنویر سپرا

No comments:

Post a Comment