Monday 11 May 2015

دن کو میں لوہے کی ایک مل میں مزدوری کرتا ہوں

دن کو میں لوہے کی ایک مِل میں مزدوری کرتا ہوں
شام کی اپنی نامکمل غزلیں پوری کرتا ہوں
میری گمنامی کا مؤجب ان لوگوں کی شہرت ہے
اپنے تن من دھن سے جن کی میں مشہوری کرتا ہوں
تم اپنے ان زہر بھرے پیالوں پر جتنے نازاں ہو
میں بھی رسمِ سقراط پر اتنی ہی مغروری کرتا ہوں
اس کی ساری خوشبو سپراؔ آج بھی مِل مالک لے جاتا ہے
لوہے کی ناف سے پیدا جو میں کستوری کرتا ہوں

ق

دن بھر تو بچوں کی خاطر میں مزدوری کرتا ہوں
شب کو اپنی غیر مکمل غزلیں پوری کرتا ہوں
کل تک ممکن ہے میں بھی بھرپور بغاوت کر بیٹھوں
آج اگرچہ شکوے باطرزِ جمہوری کرتا ہوں

تنویر سپرا

No comments:

Post a Comment