Thursday 14 May 2015

بھلاتا لاکھ ہوں لیکن برابر یاد آتے ہیں

بھُلاتا لاکھ ہوں لیکن برابر یاد آتے ہیں
الٰہی! ترکِ اُلفت پر وہ کیونکر یاد آتے ہیں
نہ چھیڑ اے ہمنشیں! کیفیتِ صہبا کے افسانے
شرابِ بے خودی کے مجھ کو ساغر یاد آتے ہیں
رہا کرتے ہیں قیدِ ہوش میں اے وائے ناکامی
وہ دشتِ خود فراموشی کے چکر یاد آتے ہیں
نہیں آتی تو یاد اُن کی مہینوں تک نہیں آتی
مگر جب یاد آتے ہیں تو اکثر یا د آتے ہیں
حقیقت کھٗل گئی حسرتؔ تِرے ترکِ محبت کی
تجھے تو اب وہ پہلے سے بھی بڑھ کر یاد آتے ہیں

حسرت موہانی

No comments:

Post a Comment