Sunday 17 May 2015

جو گرا ہے پستیوں میں تو غبار تک نہ اٹھا

جو گِرا ہے پستیوں میں، تو غُبار تک نہ اُٹھا
وہ سیاہ بخت جس سے غمِ یار تک نہ اُٹھا
کوئی موجۂ تبسّم، لبِ یار تک نہ اُٹھا
وہ نزاکتوں کا عالم، کہ یہ بار تک نہ اُٹھا
درِ یار ہے وہ منزل، کہ ہے زندگی کا حاصل
وہ قدم ہی کیا اُٹھا جو، درِ یار تک نہ اُٹھا
وہ تو ایک مَنچلا تھا، کہ زباں پہ راز لایا
کوئی فتنہ پھر اَنَا کا، کبھی دار تک نہ اُٹھا
کہیں شاخ سَرنِگوں ہے، کہیں برگِ گُل زبوں ہے
جو خِزاں کی زد میں آیا ، وہ بہار تک نہ اُٹھا
کوئی آرزو تو کیوں کر، کہیں اپنا سر اُٹھاتی
تِرے بارِ غم سے دب کر، دلِ زار تک نہ اُٹھا
وہ دبا پڑا ہے اب تک، تہِ گَردِ راہِ غُربت
وہی بد نصیب لاشہ، جو مزار تک نہ اُٹھا
جو سحر ہوئی نمایاں، تو ہزاروں درد جاگے
کوئی غم کی نیند سو کر، شبِ تار تک نہ اُٹھا
مجھے خاک میں مِلایا، یہ تِری سِتم ظریفی
یہ مِری نیاز مندی، کہ غُبار تک نہ اُٹھا
یہ بہار کا زمانہ، یہ نصیرؔ! حالِ گُلشن
گُلِ تر کی بات چھوڑو، سرِ خار تک نہ اُٹھا

سید نصیرالدین نصیر

No comments:

Post a Comment