Saturday, 16 May 2015

عمر بھر کاوش اظہار نے سونے نہ دیا

 عمر بھر کاوشِ اظہار نے سونے نہ دیا

حرفِ نا گفتہ کے آزار نے سونے نہ دیا

دشت کی وسعت بے قید میں کیا نیند آتی

گھر کی قیدِ در و دیوار نے سونے نہ دیا

تھک کے سو رہنے کو رستے میں ٹھکانے تھے بہت

ہوسِ سایۂ دیوار نے سونے نہ دیا

کبھی اقرار کی لذت نے جگائے رکھا

کبھی اندیشۂ انکار نے سونے نہ دیا

ہو گئی صبح بدلتے رہے پہلو شب بھر

ایک کروٹ پہ دلِ زار نے سونے نہ دیا


سلیم احمد

No comments:

Post a Comment