Saturday 16 May 2015

دیکھنے کے لیے اک شرط ہے منظر ہونا

دیکھنے کے لیے اِک شرط ہے منظر ہونا
دوسری شرط ہے پھر آنکھ کا پتھر ہونا
وہیں دیوار اٹھا دی مِرے معماروں نے
گھر کے نقشے میں مقرر تھا جہاں در ہونا
مجھ کو دیکھا تو فلک زاد رفیقوں نے کہا
اس ستارے کا مقدر ہے زمیں پر ہونا
باغ میں یہ نئی سازش ہے کہ ثابت ہو جائے
برگِ گُل کا خَس و خاشاک سے کمتر ہونا
میں بھی بن جاؤں گا پھر سحرِ ہَوا سے کشتی
رات آ جائے تو پھر تم بھی سمندر ہونا
یہ مِرا گردِ ہوا کی مانِند ہوا میں اُڑنا
پھر اسی گرد سے پیدا مِرا لشکر ہونا
در بہ در ٹھوکریں کھائیں تو یہ معلوم ہوا
گھر کسے کہتے ہیں، کیا چیز ہے بے گھر ہونا
کیسا گرداب تھا وہ ترکِ تعلق تیرا
کام آیا نہ مِرے میرا شناور ہونا
تم تو دشمن بھی نہیں ہو کہ ضروری ہے سلیم
میرے دشمن کے لیے میرے برابر ہونا

سلیم احمد

No comments:

Post a Comment