میں جھُوٹا حرف گواہی کا، میں کاذب لفظ کہانی کا
کیوں اب تک رشتہ باقی ہے، مِری آنکھوں سے حیرانی کا
میں ابرِ وصال میں بھِیگ چکا، میں ہِجر کی آگ میں راکھ ہوا
دل دریا اب بھی جوش میں ہے،عالم ہے وہی طغیانی کا
میں تنہائی کے ساحل پر، مصروفِ نظارہ ہوں کب سے
اِک اپنا حُسن نِرالا ہے یاں ہر موجِ امکانی کا
مِرے شہر دکھوں کی لہر میں ہیں، مِرے لوگ زیاں کے بحر میں ہیں
کوئی اِسم عطا کر خوشیوں کا کوئی رَستہ دے آسانی کا
اے دشت کے مالک مجھ کو بھی، تُو دستِ عطا سے ارزاں کر
کچھ جھونکے سرد ہواؤں کے، اِک چشمہ میٹھے پانی کا
کیوں اب تک رشتہ باقی ہے، مِری آنکھوں سے حیرانی کا
میں ابرِ وصال میں بھِیگ چکا، میں ہِجر کی آگ میں راکھ ہوا
دل دریا اب بھی جوش میں ہے،عالم ہے وہی طغیانی کا
میں تنہائی کے ساحل پر، مصروفِ نظارہ ہوں کب سے
اِک اپنا حُسن نِرالا ہے یاں ہر موجِ امکانی کا
مِرے شہر دکھوں کی لہر میں ہیں، مِرے لوگ زیاں کے بحر میں ہیں
کوئی اِسم عطا کر خوشیوں کا کوئی رَستہ دے آسانی کا
اے دشت کے مالک مجھ کو بھی، تُو دستِ عطا سے ارزاں کر
کچھ جھونکے سرد ہواؤں کے، اِک چشمہ میٹھے پانی کا
اسعد بدایونی
No comments:
Post a Comment