Saturday 9 May 2015

میں وحشت خوردہ آہو تھا دنیا نے مجھے زنجیر کیا

میں وحشت خوردہ آہُو تھا دنیا نے مجھے زنجیر کیا
مِری کھال کو اپنے کمروں کی آرائش سے تعبیر کیا
تھی چہروں کی پہچان مجھے،اس جرم پہ ظالم لوگوں نے
مِرے سر کو نیزے پر رکھا، مِرے دل میں ترازو تیر کیا
ہر دھوپ کو تیرے روپ کی چھَب، ہر رنگ کو تیرا رنگِ لب
ہر جھیل سمندر دریا کو تِری آنکھوں سے تعبیر کیا
میں سیدھا سچا بندہ تھا، مِرا کام دکھوں کا دھندا تھا
اِک روز اچانک موسم نے مجھ زندہ کو تصویر کیا
میں ایسا دانا کب کا تھا، میں ایسا بندہ کس کا تھا
کچھ خواب دیے اس مالک نے اور ان کو مِری تقدیر کیا 

اسعد بدایونی

No comments:

Post a Comment