Saturday 9 May 2015

کچھ سائے ماضی و حال کے ہیں کچھ منظر استقبال کے ہیں

کچھ سائے ماضی و حال کے ہیں کچھ منظر استقبال کے ہیں
کچھ راتیں ہجر پہ آمادہ، کچھ لمحے شوقِ وصال کے ہیں
اس شہرِ زیاں سے باہر کے، منظر ہوں مبارک یاروں کو
ہم خُوگر دھوپ کی شدت کے، ہم عادی گردِ ملال کے ہیں
اِک نہر رواں ہے جذبوں کی، ہم جس کے کنارے بیٹھے ہیں
اسباب ہے کچھ اندیشوں کا،کچھ خیمے خواب و خیال کے ہیں
ہر قریے میں بس ایک دعا، ہر بستی میں بس ایک صدا
سب قصے رزق کے ہیں، سب جھگڑے مال و منال کے ہیں
یہ چکر نہ جانے کب ٹوٹے، یہ ڈور نہ جانے کب چھوٹے
ہم مجرم ہیں کچھ سانسوں کے، ہم قیدی ماہ و سال کے ہیں 

اسعد بدایونی

No comments:

Post a Comment