Friday 8 May 2015

وہ لوگ بھی کیسے لوگ ہیں جو کوئی بات فضول نہیں کرتے

وہ لوگ بھی کیسے لوگ ہیں جو کوئی بات فضول نہیں کرتے
یہ سارے قِصے جھُوٹے ہیں، ہم ان کو قبول نہیں کرتے
تمہیں علم نہیں ہے یقین کرو، میں قریب سے جانتا ہوں ان کو
کچھ سوداگر ایسے بھی ہیں، جو قرض وصول نہیں کرتے
میں پتھر لے کر بیٹھا ہوں اور اس بستی کے دانا اب
کیوں کارِ شیشہ گری کر کے مجھ کو مشغول نہیں کرتے
کسی رَن میں ساتھ حسینؑ کا دیں کسی نہر سے پانی لے آئیں
اس شہر کے سارے نوحہ گر کوئی ایسی بھول نہیں کرتے
مِرے نام کے حرف چمکتے ہیں لیکن یہ چمک ہے شعلوں کی
میں ایک ایسی سچائی ہوں جسے لوگ قبول نہیں کرتے
مجھے بھُول کے نادم مت ہونا اے اگلی نسلوں کے بچو
ہاں اپنے بزرگوں کا ماتم کبھی تازہ پھول نہیں کرتے 

اسعد بدایونی

No comments:

Post a Comment