کشتی بھی نہیں بدلی دریا بھی نہیں بدلا
اور ڈوبنے والوں کا جذبہ بھی نہیں بدلا
تصویر نہیں بدلی، شیشہ بھی نہیں بدلا
نظریں بھی سلامت ہیں چہرہ بھی نہیں بدلا
ہے شوقِ سفر ایسا اِک عمر سے یاروں نے
بے کار گیا بَن میں سونا مِرا صدیوں کا
اس شہر میں تو اب تک سِکہ بھی نہیں بدلا
بے سمت ہواؤں نے ہر لہر سے سازش کی
خوابوں کے جزیرے کا نقشہ بھی نہیں بدلا
غلام محمد قاصر
No comments:
Post a Comment