پھر کہیں چھپتی ہے ظاہر جب محبت ہو چکی
ہم بھی رسوا ہو چکے ان کی بھی شہرت ہو چکی
دیکھ کر آئینہ، آپ ہی آپ وہ کہنے لگے
شکل یہ پریوں کی، یہ حوروں کی صورت ہو چکی
مر گئے ہم مر گئے، اس ظلم کی کچھ حد بھی ہے
کثرتِ ناز و ادا نے صبر کی فرصت نہ دی
دوسری برپا ہوئی، جب اک قیامت ہو چکی
ہم بدل جائیں گے کیا، قسمت بدل جائے گی کیا
جب نہ دنیا میں ہوئی، عقبیٰ میں راحت ہو چکی
ہم سے دیوانوں سے کترا کر چلے ناصح نہ کیوں
جانتا ہے وہ کہ، ایسوں کو نصیحت ہو چکی
اِس زمیں میں شعر کہنے کا مزا پاؤ گے، داغؔ
اب تو جو ہونی تھی، اے حضرت سلامت ہو چکی
داغ دہلوی
No comments:
Post a Comment