Saturday, 2 May 2015

پھر کہیں چھپتی ہے ظاہر جب محبت ہو چکی

پھر کہیں چھپتی ہے ظاہر جب محبت ہو چکی
ہم بھی رسوا ہو چکے ان کی بھی شہرت ہو چکی
دیکھ کر آئینہ، آپ ہی آپ وہ کہنے لگے 
شکل یہ پریوں کی، یہ حوروں کی صورت ہو چکی
مر گئے ہم مر گئے، اس ظلم کی کچھ حد بھی ہے
بے وفائی ہو چکی، اے بے مروت! ہو چکی
کثرتِ ناز و ادا نے صبر کی فرصت نہ دی
دوسری برپا ہوئی، جب اک قیامت ہو چکی
ہم بدل جائیں گے کیا، قسمت بدل جائے گی کیا
جب نہ دنیا میں ہوئی، عقبیٰ میں راحت ہو چکی
ہم سے دیوانوں سے کترا کر چلے ناصح نہ کیوں
جانتا ہے وہ کہ، ایسوں کو نصیحت ہو چکی
اِس زمیں میں شعر کہنے کا مزا پاؤ گے، داغؔ
اب تو جو ہونی تھی، اے حضرت سلامت ہو چکی

داغ دہلوی

No comments:

Post a Comment