Saturday, 2 May 2015

تم نے بدلے ہم سے گن گن کے لئے

تم نے بدلے ہم سے گِن گِن کے لیے
ہم نے کیا چاہا تھا اس دِن کے لیے
کچھ نِرالا ہے جوانی کا بناؤ
شوخیاں زیور ہیں اس سِن کے لیے
وصل میں تنگ آ کے وہ کہنے لگے
کیا یہ جوبن تھا اسی دِن کے لیے
چاہنے والوں سے گر مطلب نہیں
آپ پھر پیدا ہوئے کِن کے لیے
فیصلہ ہو آج میرا آپ کا
یہ اٹھا رکھا ہے کس دِن کے لیے
دے مئے بے درد اے پیرِ مغاں
چاہیے اِک پاک باطِن کے لیے
دل کے لینے کو ضمانت چاہیے
اور اطمینان ضامِن کے لیے
مے کشو مژدہ، اب آئی فصلِ گل
بلبلوں نے چونچ میں تِنکے لیے
ہم نشینوں سے مِرے کہتے ہیں وہ
چھوڑ دیں غیروں کو کیا اِن کے لیے
ہیں رخِ نازک پہ گِنتی کے نشاں
کس نے تیرے بوسے گِن گِن کے لیے
وہ نہیں سنتے ہماری کیا کریں
مانگتے ہیں ہم دعا جِن کے لیے
آج کل میں داغؔ ہو گے کامیاب
کیوں مَرے جاتے ہو دو دِن کے لیے

داغ دہلوی

No comments:

Post a Comment