Monday, 4 May 2015

کچھ نہ پانے کی ملامت کچھ نہ کھونے کا تماشا

کچھ نہ پانے کی ملامت، کچھ نہ کھونے کا تماشا
جانے کتنے دن رہے گا میرے ہونے کا تماشا
اس ادھوری گفتگو سے خود کو میں بہلاؤں کب تک
مجھ کو یہ محفل نظر آتی ہے رونے کا تماشا
یہ کوئی بارش نہیں ہے جس میں سب کچھ بھیگ جائے 
یہ ہے خواہش کی زمیں پر رونے دھونے کا تماشا
فصلِ غم اس بار شادابی میں پہلے سے سوا ہے
دیکھتا ہوں چاروں جانب رنج بونے کا تماشا
یہ جو ہم مل بیٹھتے ہیں، درحقیقت دیکھتے ہیں
اپنی اپنی آرزو کا بوجھ ڈھونے کا تماشا
سننے والوں اس بیاں کو صرف غصہ مت سمجھنا
یہ ہے لفظوں میں ارادوں کو پرونے کا تماشا
ریگزارِ جُستجو! تُو کتنے آنسو پی سکے گا
میں دکھا دوں گا تجھے خود کو بھگونے کا تماشا
ایک مدت میں کھلا ہے مجھ پہ بیداری کا منظر
سب نے دیکھا تھا ابھی تک میرے سونے کا تماشا
اِس غزل پر ختم ہو جائے گی کانٹوں کی روایت
عزمؔ یہ ہے پھول کو دل چبھونے کا تماشا

عزم بہزاد

No comments:

Post a Comment