Monday, 4 May 2015

جو بات شرط وصال ٹھہری وہی ہے اب وجہ بدگمانی

جو بات شرطِ وصال ٹھہری وہی ہے اب وجہ بد گمانی
ادھر ہے اس بات پر خموشی ادھر ہے پہلی سے بے زبانی
کسی ستارے سے کیا شکایت کہ رات سب کچھ بجھا ہوا تھا
فسردگی لکھ رہی تھی دل پر شکستگی کی نئی کہانی
عجیب آشوبِ وضع داری ہمارے اعصاب پر ہے طاری
لبوں پہ ترتیب خوش کلامی دلوں میں تنظیمِ نوحہ خوانی
ہمارے لہجے میں یہ توازن بڑی صعوبت کے بعد آیا
کئی مزاجوں کے دشت دیکھے کئی رویوں کی خاک چھانی
کسی اداسی کو ڈھونڈ لاؤ،۔ کہ شام اپنے عروج پر ہے
یہ خوشبوؤں کے فریب دیکھو، یہ رنگ ہیں کتنے داستانی
کبھِی یہ سوچا ہے عزؔم تم نے، بہار کس رُت کا نام ہو گا
خزاں سے تم بھی گزر رہے ہو، تو پھر یہ کیسی غلط بیانی

عزم بہزاد

No comments:

Post a Comment