Monday 4 May 2015

رستے میں جب شام آ جائے صبح بہت یاد آتی ہے

رَستے میں جب شام آ جائے صبح بہت یاد آتی ہے
ایک ملال کی لہر لہو میں آنسو ٹپکا جاتی ہے
شام آتے ہی تنہائی کے رنگ چمکنے لگتے ہیں
ایک اداسی دل کے اندر اپنے پاؤں جماتی ہے
ایک عجیب رفاقت ہے جو کھُل کر بھی کھُلتی ہی نہیں
روز نئے پیرائے میں اپنا احوال سناتی ہے
بے چینی ایسی ہے جس پر مشکل سے قابو آئے
یہ شاید وہ منزل ہے جو حیرانی کہلاتی ہے
جلتے بجھتے خواب لیے وہ نیند بھری سہمی آنکھیں
ایسی آنکھیں ہر لمحہ جن کو تعبير ڈراتی ہے
میں اس عمر کے ہنگامے میں خاصی دور نکل آیا
لیکن اِک آواز ابھی تک اپنے پاس بلاتی ہے
عزمؔ تعلق کی اِک شدت پھر نزدیک چلی آئی
ایسی شدت جو باطن میں روشنیاں پھیلاتی ہے

عزم بہزاد

No comments:

Post a Comment