Monday 4 May 2015

کتنے موسم سرگرداں تھے مجھ سے ہاتھ ملانے میں

کتنے موسم سرگرداں تھے مجھ سے ہاتھ ملانے میں
میں نے شاید دیر لگا دی خود سے باہر آنے میں
ایک نگاہ کا سناٹا ہے، اک آواز کا بنجر پن
میں کتنا تنہا بیٹھا تھا قربت کے ویرانے میں
بستر سے کروٹ کا رشتہ ٹوٹ گیا اک یاد کے ساتھ
خواب سرہانے سے اٹھ بیٹھا تکیے کو سرکانے میں
آج اس پھول کی خوشبو مجھ میں پیہم شور مچاتی ہے
جس نے بے حد عجلت برتی کھلنے اور مرجھانے میں
بات بنانے والی راتیں رنگ نکھارنے والے دن
کِن رَستوں پر چھوڑ آیا میں عمر کا ساتھ نبھانے میں
ایک ملال کی گرد سمیٹے میں نے خود کو پار کیا
کیسے کیسے وصل گزارے ہِجر کا زخم چھپانے میں
جتنے دکھ تھے، جتنی امیدیں، سب سے برابر کام لیا
میں نے اپنے آیندہ کی اِک تصویر بنانے میں
ایک وضاحت کے لمحے میں مجھ پر یہ احوال کھُلا
کتنی مشکل پیش آتی ہے اپنا حال بتانے میں
پہلے دل کو آس دلا کر بے پروا ہو جاتا تھا
اب تو عزمؔ بکھر جاتا ہوں میں خود کو بہلانے میں

عزم بہزاد

No comments:

Post a Comment