Monday 4 May 2015

اب کہاں ہیں نگہ یار پہ مرنے والے

اب کہاں ہیں نِگہِ یار پہ مرنے والے
صورتِ شمع سرِ شام سنورنے والے
رونقِ شہر انہیں اپنے تجسّس میں نہ رکھ
یہ مسافر ہیں کسی دل میں ٹھہرنے والے
کس قدر کرب میں بیٹھے ہیں سرِ ساحلِ غم
ڈوب جانے کی تمنا میں ابھرنے والے
جانے کس عہدِ طرب خیز کی امید میں ہیں
ایک لمحے کو بھی آرام نہ کرنے والے
عزمؔ یہ ضبط کے آداب کہاں سے سیکھے
تم تو ہر رنگ میں لگتے تھے بِکھرنے والے

عزم بہزاد

No comments:

Post a Comment