Monday 4 May 2015

یہ محفل کی خاموشی ہے یا اظہار کی تنہائی

یہ محفل کی خاموشی ہے، یا اِظہار کی تنہائی
ہر سرگوشی میں پِنہاں ہے اِک پِندار کی تنہائی
ایک بہار کے آ جانے سے کیسے گم ہو جائے گی
ایک طویل خزاں میں لِپٹے اِک گلزار کی تنہائی
ہِجر کی دھوپ سے ڈرنے والا اِک سائے میں جا بیٹھا
لیکن جس کو سایہ سمجھا، تھی دیوار کی تنہائی
اشیاء کی ترتیب میں خود کو تنہا کرتا رہتا ہوں
گھر میں لا کر رکھ دیتا ہوں میں بازار کی تنہائی
آگے جانے کی خواہش بھی کتنا آگے لے آئی
اِک بے منظر راہگزر ہے اور رفتار کی تنہائی
عزمؔ قریب آنے والوں سے اپنا حال نہ کہہ دینا
ہو سکتا ہے تم کو رُلا دے پھر اِنکار کی تنہائی

عزم بہزاد

No comments:

Post a Comment