خمارِ ذات کی حِدت سے جھُومتا ہُوا دیکھ
دِیا ہوا کے سمندر میں تیرتا ہوا دیکھ
نظر اٹھا سرِ آئینۂ فراق، اور پھر
خزاں کا رنگ رگِ گُل میں رینگتا ہوا دیکھ
اب ایسے وقت میں تُو کیا کرے گا میرے لیے
چل ایسا کر، مِری سانسوں کو ٹُوٹتا ہوا دیکھ
اڑایا تھا جسے تُو نے فلک کی سمت اے دوست
پھر اس غبار کو قدموں میں بیٹھتا ہوا دیکھ
پلٹ کے ایک نظر دیکھ بادباں سے ادھر
اور اس کی آنکھ میں کاجل کو پھیلتا ہوا دیکھ
یہ دل ہمیشہ سے آئینہ سا ہے تیرے لیے
سو خود کو عکس بہ عکس اس میں گونجتا ہوا دیکھ
شبِ ستارہ و مہتابِ نیلگوں، کسی وقت
ہمارا چاند بھی پانی سے کھیلتا ہوا دیکھ
دِیا ہوا کے سمندر میں تیرتا ہوا دیکھ
نظر اٹھا سرِ آئینۂ فراق، اور پھر
خزاں کا رنگ رگِ گُل میں رینگتا ہوا دیکھ
اب ایسے وقت میں تُو کیا کرے گا میرے لیے
چل ایسا کر، مِری سانسوں کو ٹُوٹتا ہوا دیکھ
اڑایا تھا جسے تُو نے فلک کی سمت اے دوست
پھر اس غبار کو قدموں میں بیٹھتا ہوا دیکھ
پلٹ کے ایک نظر دیکھ بادباں سے ادھر
اور اس کی آنکھ میں کاجل کو پھیلتا ہوا دیکھ
یہ دل ہمیشہ سے آئینہ سا ہے تیرے لیے
سو خود کو عکس بہ عکس اس میں گونجتا ہوا دیکھ
شبِ ستارہ و مہتابِ نیلگوں، کسی وقت
ہمارا چاند بھی پانی سے کھیلتا ہوا دیکھ
ایوب خاور
No comments:
Post a Comment