Friday 8 May 2015

ایک سے ایک انوکھا ستم ایجاد کیا

ایک سے ایک انوکھا ستم ایجاد کیا
تُو نے ہر دل کو نئے ڈھنگ سے برباد کیا
پھر سے کچھ جمع کیے ہم نے تِرے خواب، سراب
پھر انہیں اس دلِ مسمار کی بنیاد کیا
شامِ آوارگی تھی، میں بھی تھا اور میرا رقیب
دیر تک بیٹھ کے پھر ہم نے تجھے یاد کیا
اے دلِ سادہ و رنگیں! تِری غربت پہ نثار
”جا تجھے کش مکشِ دہر سے آزاد کیا“
تیرے عُشّاق کے شجرے میں وہ گمنام بھی ہیں
جن کو اس شجرۂ ممنوعہ نے برباد کیا
دیکھ اس سینۂ دل پر یہ ہنر کاریٔ لمس
تُو نے تو ہر سرِ مُو خامۂ بہزاد کیا
پہلے تو دل میں مِرے ضم کیا ہر غم کا وفور
زندگی! پھر اُسے تُو نے میرا ہمزاد کیا
یہ نظر کا ہی تو دھوکا ہے کہ آئینے نے
مجھے شب زاد کیا اور تجھے شہ زاد کیا
کیا یہی گردشِ دوراں ہے کہ جس نے خاورؔ
مجھ کو برباد کیا، اور تجھے آباد کیا

ایوب خاور

No comments:

Post a Comment