Friday 8 May 2015

اک خواب ہے اس خواب کو کھونا بھی نہیں ہے

اک خواب ہے، اس خواب کو کھونا بھی نہیں ہے
تعبیر کے دھاگے میں پرونا بھی نہیں ہے
لپٹا ہوا ہے دل سے کسی راز کی صورت
اک شخص کہ جس کو مِرا ہونا بھی نہیں ہے
رکھنا ہے سرِ چشم اسے ساکت و جامد
پانی میں ابھی چاند بھگونا بھی نہیں ہے
ہر چند تِرے نقشِ کفِ پا میں ہے، لیکن
یہ دل کسی بچے کا کھلونا بھی نہیں ہے
وابسطہ ہے مجھ سے کہ تو ہے کہ نہیں ہے
جب میں نہیں تجھ میں تِرا ہونا بھی نہیں ہے
جس شخص کی خاطر تِرا یہ حال ہے خاورؔ
اس شخص نے تِرے مر جانے پہ رونا بھی نہیں ہے

ایوب خاور

No comments:

Post a Comment