Friday 8 May 2015

چھڑائیں کس طرح پیچھا ترے غم سے

چھُڑائیں کس طرح پیچھا تِرے غم سے
یہی تو طے نہیں ہو پائے گا ہم سے
ابھی پہلُو سے نکلا تھا کہ پھر آ کر
خیالِ یار، دل پر آ گِرا دَھم سے
تجھے دیکھیں تو کیسے جانِ جاں! اب تک
یہ آنکھیں تَر ہیں تیرے ہِجر کے نَم سے
یہ تجھ آئینہ رُو کے سامنے کیا کیا
نظر آنے لگے اغیار مُبہم سے
گزرتا جا رہا ہے وقت پے در پے
بچھڑتے جا رہے ہیں رنگ موسم سے
مگر وہ لوگ، جن کو نیند پیاری ہے
کھُلے گی آنکھ جن کی شورِ ماتم سے
کلائی تھام کر بیٹھے ہیں یادوں کی
اگر ایسے میں آ جائے کوئی چھَم سے
بس اِک لمحے کو اپنی لَے سے ٹوٹی تھی
جھنک پائل کی جُڑ پائی نہ پھر سَم سے

ایوب خاور

No comments:

Post a Comment