گھر دیکھتے نہ گھر کے دروبام دیکھتے
بس تیرا خواب ہی سحر و شام دیکھتے
لوحِ خیال پر تِری تصویر کھینچتے
لوحِ خیال پر تِری تصویر کھینچتے
دل کے ورق پہ لِکھ کے تِرا نام دیکھتے
یہ شاخچے یہ پھول یہ لِکھتے ہوئے چمن
سورج کے ڈوبنے کا عجب دِیدنی تھا رنگ
دریا کی تمکنت کو سرِ شام دیکھتے
جھوٹی خبر محاذ سے لاتے کوئی تو ہم
مچتا ہے کیسے شہر میں کُہرام دیکھتے
وہ ابتدائے کارِ جنوں ہی میں مر گئے
جن کو یہ فکر تھی مِرا انجام دیکھتے
بہتر تھا چند لوگ نہ کرتے جو شاعری
اچھا بھلا سا اور کوئی کام دیکھتے
اسعد بدایونی
No comments:
Post a Comment