کہتے ہیں لوگ شہر تو یہ بھی خدا کا ہے
منظر یہاں تمام مگر کربلا کا ہے
آتے ہیں برگ و بار درختوں کے جسم پر
تم بھی اٹھاؤ ہاتھ کہ موسم دعا کا ہے
غیروں کو کیا پڑی ہے کہ رُسوا کریں مجھے
ان سازشوں میں ہاتھ کسی آشنا کا ہے
اب ہم وصالِ یار سے بیزار ہیں بہت
دل کا جھکاؤ ہِجر کی جانب بلا کا ہے
یہ کیا کہا کہ اہلِ جنوں اب نہیں رہے
اسعدؔ جو تیرے شہر میں بندہ خدا کا ہے
منظر یہاں تمام مگر کربلا کا ہے
آتے ہیں برگ و بار درختوں کے جسم پر
تم بھی اٹھاؤ ہاتھ کہ موسم دعا کا ہے
غیروں کو کیا پڑی ہے کہ رُسوا کریں مجھے
ان سازشوں میں ہاتھ کسی آشنا کا ہے
اب ہم وصالِ یار سے بیزار ہیں بہت
دل کا جھکاؤ ہِجر کی جانب بلا کا ہے
یہ کیا کہا کہ اہلِ جنوں اب نہیں رہے
اسعدؔ جو تیرے شہر میں بندہ خدا کا ہے
اسعد بدایونی
No comments:
Post a Comment