Friday 8 May 2015

کس شے پہ یہاں وقت کا سایہ نہیں ہوتا

کِس شے پہ یہاں وقت کا سایہ نہیں ہوتا
اِک خوابِ محبت ہے کہ بوڑھا نہیں ہوتا
وہ وقت بھی آتا ہے جب آنکھوں میں ہماری
پھرتی ہیں وہ شکلیں جنہیں دیکھا نہیں ہوتا
بارش وہ برستی ہے کہ بھر جاتے ہیں جل تھل
دیکھو تو کہیں ابر کا ٹکڑا نہیں ہوتا
گھِر جاتا ہے دل درد کی ہر بند گلی میں
چاہو کہ نکل جائیں تو رَستہ نہیں ہوتا
یادوں پہ بھی جَم جاتی ہے جب گردِ زمانہ
ملتا ہے وہ پیغام کہ پہنچا نہیں ہوتا
تنہائی میں کرنی تو ہے اِک بات کسی سے
لیکن وہ کسی وقت اکیلا نہیں ہوتا
کیا اس سے گِلہ کیجئے بربادئ دل کا
ہم سے بھی تو اظہارِ تمنا نہیں ہوتا

احمد مشتاق

No comments:

Post a Comment