Friday 8 May 2015

ترے دیوانے ہر رنگ رہے ترے دھیان کی جوت جگائے ہوئے

تِرے دیوانے ہر رنگ رہے، تِرے دھیان کی جوت جگائے ہوئے
کبھی نتھرے سُتھرے کپڑوں میں، کبھی انگ بھبھوت رمائے ہوئے
اس راہ سے چھپ چھپ کر گزری، رُت سبز سنہرے پھولوں کی
جس راہ پہ تم کبھی نکلے تھے، گھبرائے ہوئے، شرمائے ہوئے
اب تک ہے وہی عالم دل کا، وہی رنگِ شفق، وہی تیز ہوا
وہی سارا منظر جادو کا، میرے نین سے نین ملائے ہوئے
چہرے پہ چمک آنکھوں میں حیا، لب گرم خنک چھب نرم نوا
جنہیں اتنے سکون میں دیکھا تھا وہی آج ملے گھبرائے ہوئے
ہم نے مشتاقؔ یوں ہی کھولا یادوں کی کتابِ مقدس کو
کچھ کاغذ نکلے خستہ سے، کچھ پھول ملے مُرجھائے ہوئے

احمد مشتاق

No comments:

Post a Comment