دلوں کی اور دھواں سا دکھائی دیتا ہے
یہ شہر تو مجھے جلتا دکھائی دیتا ہے
جہاں کہ داغ ہے، یاں آگے درد رہتا تھا
مگر یہ داغ بھی جاتا دکھائی دیتا ہے
پکارتی ہیں بھرے شہر کی گُزرگاہیں
وہ روز شام کو تنہا دکھائی دیتا ہے
یہ لوگ ٹُوٹی ہوئی کشتیوں میں سوتے ہیں
مِرے مکان سے دریا دکھائی دیتا ہے
خِزاں کے زرد دنوں کی سیاہ راتوں میں
کسی کا پھول سا چہرا دکھائی دیتا ہے
کہیں ملے وہ سرِ راہ تو لِپٹ جائیں
ہمیں تو ایک ہی رَستا دکھائی دیتا ہے
یہ شہر تو مجھے جلتا دکھائی دیتا ہے
جہاں کہ داغ ہے، یاں آگے درد رہتا تھا
مگر یہ داغ بھی جاتا دکھائی دیتا ہے
پکارتی ہیں بھرے شہر کی گُزرگاہیں
وہ روز شام کو تنہا دکھائی دیتا ہے
یہ لوگ ٹُوٹی ہوئی کشتیوں میں سوتے ہیں
مِرے مکان سے دریا دکھائی دیتا ہے
خِزاں کے زرد دنوں کی سیاہ راتوں میں
کسی کا پھول سا چہرا دکھائی دیتا ہے
کہیں ملے وہ سرِ راہ تو لِپٹ جائیں
ہمیں تو ایک ہی رَستا دکھائی دیتا ہے
احمد مشتاق
No comments:
Post a Comment