Friday 8 May 2015

اشک دامن میں بھرے خواب کمر پر رکھا

اشک دامن میں بھرے، خواب کمر پر رکھا
پھر قدم ہم نے تِری راہگزر پر رکھا
ہم نے ایک ہاتھ سے تھاما شبِ غم کا آنچل
اور اِک ہاتھ کو دامانِ سحر پر رکھا
چلتے چلتے جو تھکے پاؤں تو ہم بیٹھ گئے
نیند گٹھڑی پہ دھری، خواب شجر پر رکھا
جانے کس دَم نکل آئے تِرے رُخسار کی دھوپ
مُدتوں دھیان تِرے سایۂ در پر رکھا
جاتے موسم نے پلٹ کر بھی نہ دیکھا مشتاقؔ
رہ گیا ساغرِ گُل سبزۂ تر پر رکھا

احمد مشتاق

No comments:

Post a Comment