Friday 8 May 2015

الجھے رہے تم ہم سے بنا بات کے لوگو

الجھے رہے تم ہم سے بِنا بات کے لوگو
ہم صرف مخالف تھے سیہ رات کے لوگو
کچھ شہر میں رسمِ وفا اور طرح کی
کچھ ہم بھی ہیں اندر سے مضافات کے لوگو
لوٹ آتے ہیں بازار سے تھک ہار کے ہر شام
ہم زخم لیے دل میں سوالات کے لوگو
بھیگی ہوئی آنکھیں ہیں جھلستا ہوا چہرہ
دن لوٹ کے پھر آ گئے برسات کے لوگو
ان پچھلی صفوں میں ہی کھڑا ہونا ہے ہم کو
اے سادہ دلو! اے میری اوقات کے لوگو
سایہ کیے رہتے ہیں کڑی دھوپ میں مجھ پر
کچھ پیڑ لگائے ہوئے اِک ہات کے لوگو
میں ہار کے بھی جنگ نہیں ہارا اگرچہ
تم آئے نہیں ساتھ میرے سات کے لوگو
آواز میں لرزش نہیں اور سر بھی نہیں خَم
اظہر پہ کرم کتنے ہیں اس ذات کے لوگو

اظہر ادیب

No comments:

Post a Comment