فدا برقِ نِگہ کے، آنکھ بھر کر دیکھتے جاؤ
جو دیکھا جائے حالِ قلبِ مضطر دیکھتے جاؤ
تمنائے قتیلِ ناز کو دیکھو نہ دیکھو تم
نزاکت سے رکا جاتا ہے خنجر، دیکھتے جاؤ
ہماری گرد دامانِ ہوا سے اڑتی آتی ہے
جمالِ دلربا ہر چند خرمن سوزِ ہستی ہے
مگر یہ مقتضائے شوق دَم بھر، دیکھتے جاؤ
سکوتِ احباب کا دَم بھر میں آخر ہے چلا جانا
مِرا احوال بالِیں پر ٹھہر کر دیکھتے جاؤ
عجب دلچسپ یہ نظارہ گِہ میں اِک تماشا ہے
کہ کوئی دیکھتا ہے تم کو کیونکر، دیکھتے جاؤ
چلے ہو ماہِ کنعاں خلوتِ شوقِ زلیخہ میں
خدا کے واسطے لوحِ مقدر دیکھتے جاؤ
نشاں رنگِ فنا کے دن بدن بڑھتے ہیں جاتے ہیں
ذرا آئینۂ ہستی کو محشرؔ دیکھتے جاؤ
محشر لکھنوی
No comments:
Post a Comment