Saturday 2 May 2015

سنتا ہے کون کس سے کہیں بزم یار میں

سنتا ہے کون، کس سے کہیں بزمِ یار میں
بیٹھے ہی بیٹھے دل نہ رہا اختیار میں
کیا کیا تڑپ تڑپ کے پکارے ہیں تم کو ہم
کیا کیا اٹھا ہے درد، دلِ بے قرار میں
آنکھیں اجل کے بند کیے بھی نہ ہوں گی بند
جاگا ہوں اس طرح سے شبِ انتظار میں
راس آئے اے خدا! دلِ پُر شوق کی امنگ
جی چاہتا ہے بیٹھے رہیں کُوئے یار میں
رگ رگ سے آ کے لے گیا چُن کر خیالِ دوست
جس جس جگہ تھا درد دلِ بے قرار میں
موسیٰؑ کے واقعے کی جب آتی ہے ہم کو یاد
اٹھتی ہے اِک چمک سی دلِ بے قرار میں
غش کھا کے اس کا طُور پہ گرنا عجب نہیں
ٹھوکر جسے کبھی نہ لگے کُوئے یار میں
محشرؔ! نگاہِ سُوئے فلک مصلحت سہی
پھر بھی نظر جھُکی ہی رہی کُوئے یار میں

محشر لکھنوی

No comments:

Post a Comment