Saturday, 9 May 2015

تمام عمر تڑپتے رہیں کسی کے لیے

تمام عمر تڑپتے رہیں کسی کے لیے
اور اپنی موت بھی آئے تو بس اُسی کے لیے
جوازِ ترکِ تعلق تو کچھ نہ تھا، پھر بھی
بِچھڑ گیا ہوں میں تجھ سے تِری خوشی کے لیے
کھُلا یہ بھید بھی، لیکن تجھے گنوا کے کھُلا
مُنافقت بھی ضروری تھی دوستی کے لیے
وہ بے خبر ہی سہی میرے حال سے یکسر
میں مُضطرب ہوں مگر آج بھی اُسی کے لیے
اگر طلوعِ سحر کا یقین ہو مجھ کو
میں دل کے ساتھ ہی جل جاؤں روشنی کے لیے
ذرا اُنہیں بھی کبھی دیکھ میرے نبض شناس
عذاب سہتے ہیں، جیتے ہیں جو کسی کے لیے

اعتبار ساجد

No comments:

Post a Comment